حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حضرت آیت اللہ العظمٰی جوادی آملی نے مسجد اعظم قم المقدسہ میں اپنے ہفتہ وار درس اخلاق میں کہا کہ خدا کی یاد کبھی تسبیحات اربعہ کی مانند ہے، یہ بھی خدا کا ذکر ہے، لیکن خدا کا ذکر وہ ہے جو انسانوں کو غیر خدا سے دور کرے، یعنی انسان کو خدا کی حرام کردہ چیزوں سے دور کرے۔
انہوں نے اپنے درس اخلاق میں نہج البلاغہ کی حکمت نمبر 128 کی تفسیر کرتے ہوئے کہا کہ حضرت علی علیہ السّلام کا کلام یہ ہے: «تَوَقَّوُا الْبَرْدَ فِی أَوَّلِهِ وَ تَلَقَّوْهُ فِی آخِرِهِ فَإِنَّهُ یَفْعَلُ فِی الْأَبْدَانِ کَفِعْلِهِ فِی الْأَشْجَارِ أَوَّلُهُ یُحْرِقُ وَ آخِرُهُ یُورِقُ»؛ آئمہ کرام علیہم السّلام کی زندگی توحید پر مشتمل تھی، ان کی سیرت و سنت توحید الٰہی تھیں، حضرات معصومین علیہم السّلام پوری کائنات اور خلقت کو خدا کی نشانی سمجھتے تھے اور ان تمام چیزوں یا بہت سی چیزوں کیلئے دعا و ذکر اور ایک خاص عمل بیان کیا ہے۔ آئمہ علیہم السّلام جب بارش ہوتی تھی تو ایک ذکر فرمایا کرتے تھے، جب بادل، چاند اور سورج کو دیکھتے تھے تو ایک الگ ذکر کرتے تھے۔ جب بارش کم ہوتی یا بالکل نہیں ہوتی تو بارش کیلئے نمازِ استسقاء پڑھتے تھے اور مخصوص دعا کرتے تھے۔ دعاؤں کا یہ طریقہ کار نہج البلاغہ اور صحیفہ سجادیہ میں بھی موجود ہے۔
آیت اللہ جوادی آملی نے کہا کہ مذکورہ بالا روایت میں حضرت علی علیہ السّلام نے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم سے نقل کرتے ہوئے فرمایا: موسم سرما کا آغاز ہو تو اس کے ابتدائی دنوں میں احتیاط کریں اور اس کے آخری دنوں سے فائدہ اُٹھائیں، خزاں کی سردی جو کہ موسم سرما کی سردی کے ہمراہ ہوتی ہے اس سے بھی اپنے آپ کو بچائیں، گرم لباس پہنیں، کیونکہ خزاں کی سردی آپ کے ساتھ وہی کرے گی جو وہ درختوں کے پتوں کے ساتھ کرتی ہے۔ درختوں کے پتے گر جاتے ہیں، پتوں کو زرد کرتی ہے، درختوں کی جڑوں کو سست کرتی ہے، انہیں سلا دیتی ہے، یہ پہلی سردی کی خصوصیت ہے جو خزاں سے شروع ہوتی ہے۔ آخر میں فرماتے ہیں: بہار کا موسم ہے کہ جس کی سردی اور آب و ہوا سے استفادہ کریں، جس طرح بہار کی سردی سوتے کو زندہ اور جگا دیتی ہے، پتوں کو سر سبز و شاداب کرتی ہے، پھل لگ جاتے ہیں، اسی طرح آپ کے جسم کو بھی فعال اور متحرک کرتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ خداوند متعال بھی فرماتا ہے: اگر فلاں اچھے کام کو انجام دو گے تو بہشت میں جاؤ گے یا مثلاً صدقہ دو تو اس کے دس برابر اجر و ثواب ملے گا اور کبھی فرماتا ہے: اگر مجھے یاد کرو گے تو میں تمہیں یاد کروں گا:﴿فَاذْکُرُونی أَذْکُرْکُمْ﴾، قرآن مجید میں اس جیسا کوئی نمونہ نہیں ہے، یعنی خدا کی یاد میں رہو وہ آپ کی یاد میں رہتا ہے۔
آیت اللہ العظمٰی جوادی آملی نے کہا کہ یہاں تک کہ خداوند متعال نے محبت کے بارے میں بھی فرمایا ہے: اگر خدا کے دوست ہو اور چاہتے ہو کہ خدا بھی آپ کو دوست رکھے تو ایک کام ضرور کریں: ﴿إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونی یُحْبِبْکُمُ اللَّهُ﴾ خداوند متعال اپنے حبیب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم سے فرماتا ہے کہ آپ میرے حبیب ہیں، جب آپ خدا کے حبیب ہو گئے تو آپ محبت کا محور ہیں، جب آپ محبت کا محور قرار پائیں گے تو اگر کوئی میرا دوست بننا چاہتا ہے تو آپ کے توسط سے آئے گا۔ آپ محبت کا محور ہیں، جو بھی اس گھرانے کے گرد گھومے گا وہ حاجی بن جائے گا، جو بھی اہل بیت علیہم السّلام کے گرد گھومے وہ حبیب بن جائے گا، لیکن اسے بڑھ کر ذکر کا مسئلہ ہے۔ ذکر کے بارے میں فرمایا: ﴿فَاذْکُرُونی أَذْکُرْکُمْ﴾، کوئی شرط نہیں ہے کہاں جانا ہے نہیں کہا، بلکہ فرمایا اگر میری یاد میں رہو تو میں بھی تمہاری یاد میں رہوں گا، اس کا یا تو قرآن مجید میں بالکل کوئی نمونہ نہیں ہے یا کمیاب ہے۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ خدا کا ذکر، انسانوں کو غیر خدا کے ذکر سے دور کرے، کہا کہ خدا کی یاد کبھی تسبیحات اربعہ کی مانند ہے، یہ بھی خدا کا ذکر ہے، لیکن خدا کا ذکر وہ ہے جو انسانوں کو غیر خدا سے دور کرے، یعنی انسان کو خدا کی حرام کردہ چیزوں سے دور کرے۔
انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے حضرت نے فرمایا خزاں کی ہوا سے بچیں اور بہار کی ہوا سے لطف اندوز ہوں، لیکن فرمایا: آپ کی بہار، قرآن مجید ہے۔ نہج البلاغہ کے کئی مقام پر آیا ہے کہ «إنّه ربیع القرآن». اگر بہار چاہیئے تو آپ کا اٹھنا بیٹھنا قرآن مجید کے ساتھ ہو۔ قرآن مجید کی تفسیر، عمل، قرآن کی تبیین اور قرآنی احکام مت بھولیں۔